ہمیں اب تک ایلین کیوں نہیں ملے؟
تحریر: شاکر اللہ

کہکشاؤں میں نیبولا وہ گیس اور دھول کے بادل ہوتے ہیں جہاں ستارے بنتے ہیں، اور انہی ستاروں کے گرد سیارے وجود میں آتے ہیں۔ ہمارا اپنا سورج بھی تقریباً 5 ارب سال پہلے ایک نیبولا میں بنا تھا، جس کے گرد 15 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سیارہ موجود ہے، جہاں آپ کو زندگی کی بے شمار اقسام ملتی ہیں۔ آج جو جاندار زمین پر موجود ہیں، وہ قدرتی چناؤ (natural selection) کا نتیجہ ہیں، جبکہ بہت سی اقسام زمین پر پیش آنے والے مختلف حادثات کے باعث ختم ہو چکی ہیں۔ہم انسان وقت کے ساتھ ساتھ غلطیاں کرتے رہے، ان سے سیکھتے رہے، اور اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرتے گئے۔ یہاں تک کہ آج ہم اتنے سمجھدار ہو چکے ہیں کہ کائنات کی وسعت کو کچھ حد تک سمجھنے کے بعد یہ سوچنے لگے ہیں کہ “کیا ہم واقعی کائنات میں اکیلے ہیں؟

” جنوری 1946 کو “پروجیکٹ ڈیانا” کے ذریعے ہم نے 111.5 MHz کی ریڈیو ویوز چاند کی طرف بھیجیں۔ چونکہ ریڈیو لہریں روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں، لہٰذا وہ ایک سیکنڈ سے کچھ زیادہ وقت میں چاند تک پہنچ گئیں اور تقریباً 2.5 سیکنڈ میں واپس بھی آ گئیں۔ اس تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ ریڈیو ویوز خلا میں سفر کر سکتی ہیں، اور یوں ہمیں خلا میں کمیونیکیشن ممکن ہونے کا یقین ہو گیا۔مگر اہم بات یہ ہے کہ ان ریڈیو ویوز میں سے کچھ تو واپس آئیں، لیکن اکثر لہریں خلا میں سفر کرنے لگیں — اور ان کا سفر آج بھی جاری ہے۔اگرچہ فاصلے کے ساتھ ان کی طاقت کم ہوتی ہے اور خلائی اجسام جیسے سیارے اور شہابی پتھر ان سگنلز کو جذب یا موڑ سکتے ہیں، لیکن یہ لہریں مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ مسلسل حرکت میں رہتی ہیں۔ہم ہر وقت ایف ایم ریڈیو، ریڈار اور ٹیلی ویژن کے سگنلز خلا میں بھیجتے جا رہے ہیں، اور پروجیکٹ ڈیانا کے سگنلز غالباً اب تک 79 نوری سال کا فاصلہ طے کر چکے ہوں گے، اور بیچ میں کئی ستاروں اور ان کے سیاروں کے قریب سے گزر چکے ہوں گے۔
اس 79 نوری سال کی وسعت میں کئی قابلِ رہائش سیارے موجود ہیں جیسے: HD 40306, Tau Ceti اور Gliese، جہاں پانی مائع حالت میں موجود رہ سکتا ہے۔ اگر ان سیاروں پر کوئی مخلوق موجود ہو، اور اگر ان کے پاس ریڈیو ویوز کو ڈیٹیکٹ کرنے کے انتہائی حساس آلات ہوں، تو شاید وہ ہمارے سگنلز کو شناخت بھی کر چکے ہوں۔

لیکن کیا دیگر سیاروں کی مخلوق بھی ایسے ہی سگنلز خلا میں بھیجتی ہے جنہیں ہم تلاش کر سکیں؟ہم انسان 1960 سے اب تک خلا سے آنے والے سگنلز پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس امید میں کہ شاید کوئی قابلِ غور سگنل ہمیں مل جائے — مگر ابھی تک کوئی ایسا سگنل نہیں ملا جو ثابت کرے کہ وہ کسی ذہین مخلوق کی طرف سے آیا ہو۔شاید دوسرے سیاروں پر رہنے والی مخلوق نے بھی سگنلز بھیجے ہوں، مگر ہم صحیح وقت اور صحیح سمت میں ان کو ڈیٹیکٹ نہیں کر سکے۔ یا شاید وہ سگنلز ہمارے اردگرد ہی موجود ہوں، لیکن ہم اپنی کمزور ٹیکنالوجی کی وجہ سے انہیں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ممکن ہے خلائی مخلوق ہمیں اتنا کمتر اور غیر اہم سمجھتی ہو جیسے ہم چیونٹی یا مچھر کو سمجھتے ہیں، اسی لیے وہ ہم سے رابطہ نہیں کر رہے۔لیکن ہمیں اپنی تحقیق جاری رکھنی ہے، اور سوال پوچھنے کی عادت برقرار رکھتے ہوئے ترقی کرنی ہے۔کون جانے، کسی دن ہمیں واقعی کسی عجیب و غریب مخلوق کا سامنا ہو جائے؟—
#تحریر_شاکراللہ
#AlienLife #ProjectDiana #NASA #Radio_Signals #Shakir_Insight