Home » کیا ہم ماضی دیکھ سکتے ہیں؟

کیا ہم ماضی دیکھ سکتے ہیں؟

کائنات کا ماضی ہم ستارے کے زریعے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

by Shakir Khan
0 comments 93 views 2 minutes read Hassan Ibn al-Haytham حسن ابن الہیثم

تحریر: شاکر اللہ

نہیں، میں انسانوں والے بھوتوں کی بات نہیں کر رہا، بلکہ ستاروں والے بھوتوں کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ مگر یہ بھوت آخر ہوتے کیسے ہیں؟ کیا آپ مانیں گے کہ ہم ماضی کو دیکھ سکتے ہیں؟ نہیں؟ تو آئیے، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے، عراق کے شہر بصرہ میں ابن الہیثم یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہم

Hassan Ibn al-Haythamحسن ابن الہیثم

Hassan Ibn al-Haytham
حسن ابن الہیثم

چیزوں کو دیکھتے کیسے ہیں۔ اُس زمانے میں یہ نظریہ تھا کہ روشنی ہماری آنکھوں سے نکلتی ہے، سامنے موجود اشیاء پر پڑتی ہے اور واپس آتی ہے، جس سے ہمیں وہ چیزیں نظر آتی ہیں۔ لیکن حسن ابن الہیثم اس نظریے سے متفق نہیں تھے۔ وہ سوچتے تھے: اگر ستارے ہم سے اتنے دور ہیں، تو روشنی اتنی تیزی سے جا کر

Sirius star

A shiny star in night sky about 8.6 LY away from Earth

کیسے واپس آ سکتی ہے؟

یہ اسلامی دنیا میں سائنس کا سنہری دور تھا۔ مسلمان علم پر خوب محنت کر رہے تھے، اور علمِ فلکیات عربی میں اس قدر مقبول تھا کہ آج بھی ہم ستاروں کو عربی ناموں سے جانتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب عربی زبان، سائنس کی زبان ہوا کرتی تھی۔ ابن الہیثم ہی نے یہ ثابت کیا کہ روشنی سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے۔

ہم آج جانتے ہیں کہ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے یا تو وہ خود روشنی پیدا کرے (جیسے سورج، ستارے) یا روشنی کو منعکس کرے (جیسے چاند یا دیگر مادی اشیاء)۔

🌌 ہماری کائنات کے کچھ بنیادی قوانین ہیں — ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کوئی مادی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر: چاند ہم سے تقریباً 3,84,000 کلومیٹر دور ہے، اور اس کی روشنی ہم تک صرف 1.28 سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ یعنی ہم چاند کا 1.28 سیکنڈ پرانا چہرہ دیکھتے ہیں۔

اسی طرح، سورج جو ہم سے 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے — اس کی روشنی ہم تک 8 منٹ 50 سیکنڈ میں پہنچتی ہے۔ جتنا کوئی ستارہ ہم سے دور ہو گا، ہم اُس کا اتنا ہی پرانا چہرہ دیکھتے ہیں۔

GN-z11

GN-z11
The oldest galaxy in the universe by Jemes web space telescope

مثال کے طور پر، سائرس ہم سے 8.6 نوری سال دور ہے، تو ہم اس کی 8.6 سال پرانی حالت دیکھ رہے ہیں۔ اور کہکشاں GNz-11 تو ہم سے 13 ارب 40 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے! ہم جو کچھ بھی اس میں دیکھتے ہیں، وہ اتنا ہی پرانا ہے۔ شاید وہ کہکشاں اب وہاں موجود ہی نہ ہو۔۔۔ مگر اس کی روشنی آج بھی ہم تک پہنچ رہی ہے۔

اسی لیے، جب آپ اگلی بار آسمان کی طرف دیکھیں تو ضرور سوچیں: یہ سب ستاروں کے بھوت ہیں۔

 

You may also like

Leave a Comment

* By using this form you agree with the storage and handling of your data by this website.

-
00:00
00:00
Update Required Flash plugin
-
00:00
00:00