Home » مائیکل فیراڈے کی عجیب زندگی

مائیکل فیراڈے کی عجیب زندگی

by Shakir Khan
0 comments 107 views 4 minutes read

تحریر: شاکر اللہ

آپ کو کیا لگتا ہے، مائیکل فیراڈے — جس کے الیکٹرو میگنیٹزم کے قوانین آج ہماری نصابی کتابوں کا حصہ ہیں — کوئی بچپن سے ہی ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب انسان تھا؟ نہیں، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

وہ عمر جس میں بچے انگریزی کے حروف پہچان لیتے ہیں، اسی عمر میں جب فیراڈے کی معلمہ نے اس سے پوچھا: “R سے کیا آتا ہے؟” — تو وہ جواب نہ دے سکے۔ بار بار سکھانے کے باوجود وہ سیکھ نہ پائے، الٹا غلط بولتے رہے۔ آخرکار، استانی نے کچھ پیسے دے کر ایک طالبعلم کو چھڑی لانے بھیجا تاکہ فیراڈے کو سزا دی جا سکے۔

جب یہ بات اس کی ماں کو پتہ چلی، تو وہ اسکول آئیں، بیٹے کا ہاتھ تھاما، اور اسے ہمیشہ کے لیے اسکول سے نکال لائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اُس دن کے بعد مائیکل فیراڈے نے کبھی اسکول کا چہرہ نہ دیکھا۔

تعلیم کی کمی، مگر علم کی پیاس

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسکول چھوڑ کر اس نے فائدہ اٹھایا، تو یہ غلط فہمی ہے۔ فیراڈے کو آگے چل کر رسمی تعلیم کی کمی کا بہت نقصان ہوا، خصوصاً ریاضی میں کمزوری ہمیشہ ان کی راہ میں ایک دیوار بنی رہی۔ مگر علم کا جنون، محنت کا جذبہ، اور اللہ کی دی ہوئی مشاہداتی صلاحیت نے وہ کمال کر دکھایا جو آج بھی دنیا کو حیران کر دیتا ہے۔

کتابوں سے دوستی، علم سے عشق

فیراڈے 22 ستمبر 1791ء کو لندن میں ایک نہایت غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد ایک لوہار تھے اور گھر میں فاقوں کی نوبت رہتی تھی۔ صرف 13 سال کی عمر میں مائیکل نے ایک کتابوں کی جلد بنانے والے (بُک بائنڈر) کے پاس کام شروع کیا۔ دن بھر وہ کتابیں جلد کرتا، رات کو انہی کتابوں کو پڑھتا۔ الیکٹریسٹی، کیمیا، اور طبعیات کے ابتدائی نظریات وہیں سے اس کے دل میں اترنے لگے۔

پہلا موقع — قسمت کا دروازہ کھلتا ہے

ایک دن اس نے سر ہمفری ڈیوی کا لیکچر سنا۔ جہاں دوسرے لوگ تالیاں بجا رہے تھے، وہاں فیراڈے خاموشی سے ان کے لیکچر کے ہر جملے کو اپنی نوٹ بک میں قلمبند کرتا رہا۔ پھر اس نے یہ نوٹ بک بڑی محبت سے ڈیوی کو بھیجی۔ سر ڈیوی اس نوجوان کی دلچسپی، خوبصورت تحریر اور علم سے لگاؤ سے بے حد متاثر ہوئے، اور 1813ء میں اُسے اپنا اسسٹنٹ بنا لیا۔

ایک بار سر ڈیوی ایک کیمیائی تجربے میں زخمی ہو گئے اور ان کی آنکھیں متاثر ہو گئیں۔ اب انہیں ایک قابل، سمجھدار اور محتاط اسسٹنٹ کی ضرورت تھی۔ فیراڈے کو بلایا گیا۔ وہ شروع میں لیبارٹری صاف کرنے، بوتلیں دھونے اور آلات سمیٹنے کا کام کرتا تھا، مگر وہی کام اس نے ایسی محبت اور احتیاط سے کیا کہ جلد ہی خود تجربات کرنے لگا۔

سائنس کی دنیا میں انقلاب

مائیکل فیراڈے نے کئی ایسی دریافتیں کیں جن پر آج کی سائنسی دنیا کھڑی ہے:

  • الیکٹرو میگنیٹک انڈکشن: وہ پہلا شخص جس نے برقی رو سے حرکت پیدا کرنے کا عملی تجربہ کیا — یعنی آج کی الیکٹرک موٹر اسی کی مرہونِ منت ہے۔
  • الیکٹرو کیمیکل قوانین: بیٹریز، الیکٹرولائسس، اور الیکٹرو پلیٹنگ جیسے عمل اسی کی تحقیقات کی بنیاد پر چلتے ہیں۔
  • برقی رو اور مقناطیسیت کا تعلق: اس نے دکھایا کہ برقی رو سے مقناطیسی میدان پیدا کیا جا سکتا ہے — جو آج کے جنریٹرز اور موٹرز کا اصول ہے۔

فیراڈے کو ریاضی نہیں آتی تھی۔ نہ پیچیدہ فارمولے، نہ مساواتیں — مگر اس کی مشاہداتی طاقت، تجربات پر عبور اور تصوراتی گہرائی نے اسے ایسے نظریات تک پہنچایا جنہیں بعد میں جیمز کلرک میکسویل جیسے سائنسدانوں نے ریاضی کی زبان دی۔

فیراڈے ایک باایمان اور عاجز انسان تھے۔ وہ کسی یونیورسٹی کا پروفیسر نہ بنے، نہ کوئی دولت جمع کی۔ ملکہ برطانیہ نے جب اُنہیں شاہی اعزاز کی پیشکش کی، تو انہوں نے بڑی سادگی سے انکار کر دیا۔

25 اگست 1867ء کو مائیکل فیراڈے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مگر ان کا نام آج بھی ہر اُس جگہ زندہ ہے جہاں بجلی حرکت پیدا کرتی ہے، جہاں موٹرز گھومتی ہیں، جہاں لیبارٹریوں میں تجربات ہوتے ہیں۔

وہ بچہ جو “R” سے لفظ نہ بتا سکا، آج اس کے قوانین دنیا کی ہر فزکس کی کتاب میں موجود ہیں۔

تو کیا تم واقعی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہار مانو گے؟
اگر فیراڈے جوتے پالش کرنے والے، ناکام طالبعلم سے دنیا کے سب سے بڑے سائنسدان بن سکتے ہیں،
تو تم کیوں نہیں؟

You may also like

Leave a Comment

* By using this form you agree with the storage and handling of your data by this website.

-
00:00
00:00
Update Required Flash plugin
-
00:00
00:00