پاکستان اکتوبر 2025 میں ایک نیا سیٹلائٹ لانچ کرنے جا رہا یے۔
تحریر: شاکر اللہ ۲۶ | ستمبر ۲۰۲۵
سپارکو جو کہ پاکستانی خلائی ایجنسی ہے اکتوبر 2025 کو ایک نیا جدید ہائپر سپیکٹراکولر سیٹیلائٹ بھیجنے کے لئے تیار ہے۔
اس سٹیلائٹ کو کہاں سے بھیجا جائے گا؟
چونکہ پاکستان کے پاس اپنا کوئی فعال اور Large-scale Rocket Launch Facility موجود نہیں ہے اس وجہ سے پاکستان چائنہ کے (Xichang, Jiuquan, Wenchang sites) کا استعمال اپنے سیٹیلائٹ کو لانچ کرنے کے لئے کرتا ہے۔
کیا چائینہ سے اپنے سیٹیلائٹ لانچ کرنا پاکستانی قوم کے لئے شرم کی بات یے؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے!
ضروری نہیں ہیکہ سیٹلائٹ کو اپنے ہی ملک سے لانچ کیا جائے کیونکہ یہ ایک راکٹ والا کام ہوتا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ناسا جیسے ادارے بھی دیگر (SpaceX, ULA) کے راکٹوں کا استعمال کرتے ہیں اپنے خلائی مشنز میں۔
پاکستان کے اس سٹیلائٹ کا کیا فایدہ ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ ہائپر اسپیکٹراکولر سیٹیلائٹ روشنی کی ان کرنوں “Rays” کو دیکھ سکتا ہے جنہیں انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس سیٹیلائٹ کے ذریعے ہم گلیشیئر کے پگھلاؤ جو کہ سیلاب کا سبب بنتے ہیں، سیلابی صورتحال، ہوائی آلودگی، پانی اور مٹی کی کوالٹی، زرعی زمینوں کی حالت اور معدنی وسائل پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ وہ کام جو پہلے سالوں لیتے تھے اب دنوں یا ہفتوں میں ممکن ہو سکیں گے۔
سیٹلائٹ کیا دیکھ سکے گا؟
🌊 پانی کی کوالٹی:
ہائپر اسپیکٹرل امیجنگ کے ذریعے پانی میں موجود آلودگی، کلوروفل کی مقدار، اور سسپینڈڈ پارٹیکلز کا پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اس سے جھیلوں، ڈیموں اور دریاؤں کی حالت معلوم ہوتی ہے۔
🌱 ایگریکلچر:
یہ سیٹلائٹ کھیتوں میں فصلوں کی صحت، نمی کی مقدار، اور غذائی کمی کو detect کر سکے گا۔ کسان بہتر کھاد، پانی اور فصلوں کے انتخاب کے فیصلے کر سکیں گے۔
🌍 مٹی اور معدنیات:
مٹی کی ساخت، نمی اور غذائی اجزاء کو شناخت کرنے کے لیے یہ سیٹلائٹ اہم ہوگا۔ معدنی وسائل کی نشاندہی اور زمین کے استعمال (Land Use Mapping) میں بھی مدد ملے گی۔
🌊 سیلاب اور گلیشیئرز:
یہ سیٹلائٹ گلیشیئرز کے پگھلنے، برف کی مقدار میں تبدیلی اور پانی کے بہاؤ کو مانیٹر کرے گا۔ بارش کے بعد ممکنہ سیلابی صورتحال کی پیش گوئی میں بھی مدد ملے گی۔
🌫️ ماحولیاتی مسائل:
فضا میں آلودگی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اور دیگر گیسوں کی مقدار کو بھی مختلف سپیکٹرل بینڈز کے ذریعے ٹریک کیا جا سکتا ہے
ایک سیٹیلائٹ کیسے یہ سب کام کرتا ہے؟
یہ ڈیٹا سپارکو کی جانب سے فراہم نہیں کیا گیا بلکہ یہ عمومی سائنسی معلومات ہیں کہ عام طور پر ایسے سیٹلائٹ کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کے اندر کون سے کمپوننٹس موجود ہوتے ہیں:
- Hyperspectral Imager (HSI)
- یہ بنیادی آلہ ہے جو سینکڑوں اسپیکٹرم بینڈز میں روشنی کو ریکارڈ کرتا ہے۔
- پانی کی کوالٹی: جھیلوں اور دریاؤں کے رنگ اور روشنی کی عکاسی سے آلودگی، طحالب (algae) اور مٹی کے ذرات کی شناخت ہوتی ہے۔
- زراعت: فصلوں کی پتوں کی عکاسی سے کلوروفل کی مقدار معلوم ہوتی ہے، جس سے فصل کی صحت اور پیداوار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
- Thermal Infrared Sensor (TIR)
- یہ سینسر زمین اور پانی کی حرارت (temperature) کو ریکارڈ کرتا ہے۔
- گلیشیئرز: درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے برف پگھلنے کی رفتار معلوم کی جا سکتی ہے۔
- سیلاب: بارش کے بعد زمین اور دریا کے پانی کے درجہ حرارت سے پانی کے بہاؤ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
- Synthetic Aperture Radar (SAR)
- یہ ریڈار ٹیکنالوجی ہے جو دن رات اور بادلوں میں بھی زمین کو دیکھ سکتا ہے۔
- سیلاب اور بارش: پانی کے پھیلاؤ اور زمین کی نمی (moisture) کو فوری طور پر جانچ سکتا ہے۔
- مٹی: زمین کی سختی اور نمی کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
- Atmospheric Sensors
- یہ سینسر فضائی ذرات اور گیسوں کو detect کرتے ہیں۔
- فضائی آلودگی: کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گیسوں کی سطح معلوم کی جاتی ہے۔
- کلائمیٹ اسٹڈیز: ہوا کے دباؤ اور نمی کی پیمائش سے موسمی تبدیلیوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
پاکستان کو اس سے کیا فایدہ ہوگا؟
یہ سیٹیلائٹ پاکستان کو زراعت، معدنیات، ماحولیات اور قدرتی آفات سے بچاؤ کے میدان میں ایک نئی سمت دے گا۔ کسانوں کو فصلوں کے بارے میں درست ڈیٹا مل سکے گا، معدنی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکے گا، اور قدرتی آفات جیسے سیلاب یا گلیشیئر پگھلاؤ کے اثرات کا پہلے سے اندازہ لگا کر جانی اور مالی نقصان کم کیا جا سکے گا۔